Pakistan

6/recent/ticker-posts

اب افغانستان کا کیا کریں

میں گیارہ ستمبر دو ہزار ایک کی شام کراچی پریس کلب کے ہال میں انتہائی بوریت کے عالم میں دیگر ویہلے صحافیوں کے ہمراہ کیبل چینل پر کوئی تھکی ماندی ہندی فلم دیکھ رہا تھا ۔ ایک آواز آئی سی این این لگاؤ جلدی سے۔ کسی نے چینل بدلا۔ ایک اسکائی اسکریپر میں ایک طیارہ گھس جاتا ہے اور یہ منظر بار بار دکھایا جا رہا ہے سب یہی سمجھے کہ یہ ہالی وڈ کی کسی نئی ایکشن تھرلر کا ٹریلر ہے۔ جس کے ہاتھ میں ریموٹ تھا اس نے ’’ابے یار کیا بوریت ہے‘‘ کہتے ہوئے پی ٹی وی لگا دیا۔ مگر وہاں پر بھی اسکائی اسکریپر میں طیارہ گھسنے کا وہی منظر دکھایا جا رہا تھا۔ تب آہستہ آہستہ یقین آنے لگا کہ یہ کوئی فلمی ٹریلر نہیں بلکہ سچ مچ کی فلم ہے۔ مگر یہ نہیں معلوم تھا کہ یہ فلم کم ازکم اگلے بیس برس تک گلے میں پڑنے والی ہے۔ نائن الیون کے چھبیس روز بعد امریکا نے افغانستان پر ہلہ بول دیا۔ اب وہی امریکا نائن الیون کی بیسویں برسی سے پہلے پہلے افغانستان سے مکمل انخلا کی تیاری کر رہا ہے۔ کوئی پوچھے کہ آیا کیوں تھا اور اب جا کیوں رہا ہے ؟۔ بظاہر افغانوں کو ایک باعزت جمہوری نظام دینے آیا تھا اور اب بیس برس بعد اپنی عزت بچا کے رخصت ہو رہا ہے۔

اس امریکی رخصتی کے بعد جو کچھ ہونے والا ہے وہ ایک بار پھر پاکستان ہی بھگتے گا۔ اگرچہ اس بار پاکستان دو ہزار چھ سو ستر کلومیٹر طویل مغربی سرحد پر تیزی سے باڑھ لگا رہا ہے۔ بقول شیخ رشید یہ کام تیس جون تک مکمل ہو جائے گا۔ پر دیکھنا یہ ہے کہ یہ باڑھ سرحد پار سے آنے والی مصائب کی نئی باڑ کو کس قدر روک پائے گی۔ پچھلے چالیس برس میں پاکستان کے ساتھ یہ تیسری بار ہونے جا رہا ہے۔ دو بار تو اسے امریکا اور خلیجی ریاستوں کی امداد و تائید میسر تھی۔ مگر تیسری بار کا ملبہ لگتا ہے پاکستان کو خود ہی صاف کرنا پڑے گا۔ اس ملبے کی نوعیت اور مقدار کیا ہو گی ؟ کم ازکم یہ تو معلوم پڑے۔ سات اکتوبر دو ہزار دو سے اپریل دو ہزار اکیس تک کے بیس برس میں افغانستان میں کم ازکم دو لاکھ اکتالیس ہزار مصدقہ اموات ہوئی ہیں۔ ان میں اکہتر ہزار تین سو چوالیس سویلین اموات ہیں۔ان سویلینز میں سے سینتالیس ہزار دو سو پینتالیس افغانستان کی حدود میں اور چوبیس ہزار ننانوے پاکستانی حدود میں مرے۔ فوج ، نیم فوجی اداروں اور پولیس کے اٹہتر ہزار تین سو چودہ اہلکار قربان ہوئے۔ ان میں سے لگ بھگ انہتر ہزار اہلکار افغان اور نو ہزار تین سو چودہ پاکستانی اہلکار تھے۔

چوراسی ہزارایک سو اکیانوے اموات حکومت مخالف جنگجوؤں کی ہوئیں۔ ان میں افغان طالبان، داعش اور کالعدم ٹی ٹی پی کے حامی نمایاں ہیں۔ ان میں سے اکیاون ہزار ایک سو اکیانوے اموات افغانستان میں اور تینتیس ہزار پاکستان میں ہوئیں۔ اس پورے عرصے میں تین ہزار پانچ سو چھیاسی غیرملکی فوجی ہلاک ہوئے۔ ان میں سے دو ہزار چار سو بیالیس امریکی اور ایک ہزار ایک سو چوالیس دیگر ممالک کے فوجی تھے۔ بیس ہزار کے لگ بھگ غیر ملکی فوجی زخمی ہوئے۔ نصف سے زائد کو کسی نہ کسی نفسیاتی مدد کی ضرورت بھی پڑی۔ ان کے علاوہ تین ہزار نو سو چھتیس وہ امریکی مرے جو فوج کا باقاعدہ حصہ نہیں تھے بلکہ ٹھیکے پر عسکری و دیگر خدمات انجام دے رہے تھے۔ بیس برس کے دوران اس بحران نے پانچ سو انچاس این جی او رضاکاروں اور ایک سو چھتیس صحافیوں اور میڈیا کارکنوں کو بھی نگل لیا۔

دو ہزار دس سے اپریل دو ہزار اکیس تک کے دس برس میں اقوامِ متحدہ کے ماتحت متعلقہ اداروں کے انتہائی محتاط اندازے کے مطابق سات ہزار سات سو بانوے بچے جنگ کا ایندھن بن گئے اور اٹھارہ ہزار چھ سو باسٹھ زخمی ہوئے۔ اس عرصے میں تین ہزار دو سو انیس خواتین براہ راست جنگ کے سبب ہلاک اور سات ہزار زخمی ہوئیں۔ ان میں عام عورتوں کے ساتھ ساتھ فلاحی کارکن اور صحافی خواتین بھی شامل ہیں۔ بیس برس میں تین کروڑ اسی لاکھ کی آبادی میں سے چالیس لاکھ افغان اندرونِ ملک دربدر ہوئے اور ستائیس لاکھ نئے پناہ گزین ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ اگرچہ ان بیس برس کے دوران ایک افغان کی اوسط عمر چھپن برس سے بڑھ کے چونسٹھ برس تک پہنچ گئی۔ دورانِ زچگی شرحِ اموات نصف ہو گئی، صحت و تعلیم کی سہولتوں میں نسبتاً اضافہ ہوا۔ پارلیمنٹ میں خواتین کی نمایندگی ستائیس فیصد تک پہنچ گئی۔ مگر اربوں ڈالر خرچ کرنے کے بعد بھی افغانستان آج بھی خواتین کی سلامتی کے تناظر میں یمن کے بعد دوسرا سب سے غیر محفوظ ملک ہے۔

سینتیس لاکھ افغان بچے اسکول سے باہر ہیں اور ان میں ساٹھ فیصد بچیاں ہیں۔ دو ہزار سات میں غربت کی شرح چونتیس فیصد تھی جو اب پچپن فیصد تک ہے۔ امریکا نے گزشتہ بیس برس میں منشیات کی پیداواری روک تھام کے لیے افغانستان میں نو ارب ڈالر خرچ کیے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ دو ہزار دو میں افغانستان میں چوہتر ہزار ہیکٹر پر پوست کی کاشت ہوئی جو دو ہزار بیس میں بڑھ کر ایک لاکھ تریسٹھ ہزار ہیکٹر تک پہنچ گئی۔ گویا مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ یورپ سے باہر نیٹو اتحاد کی یہ سب سے طویل فوجی مہم تھی۔ امریکا نے بھی اپنی سوا دو سو سالہ تاریخ میں اتنی طویل جنگ پہلے کبھی نہیں لڑی۔ چار امریکی صدور اور چھ امریکی حکومتیں اس جنگ کے دوران تبدیل ہوئے۔ بییس برس پہلے تیرہ ہزار امریکی فوجی افغانستان میں اترے تھے۔ خیال یہ تھا کہ اگلے چار ماہ میں فوجی اہداف حاصل ہو جائیں گے۔مگر دس برس بعد امریکی اور ناٹو فوجیوں کی تعداد ایک لاکھ چالیس ہزار تک پہنچ گئی۔ آج چھتیس ممالک سے تعلق رکھنے والے ان فوجیوں کی تعداد دس ہزار کے لگ بھگ ہے۔ جب کہ بائیس ہزار پانچ سو باسٹھ امریکی کنٹریکٹرز اس کے علاوہ ہیں۔

ان چھتیس ممالک کے دس ہزار فوجیوں کی ضرب تقسیم کی جائے تو امریکا کے ڈھائی ہزار ، جرمنی کے تیرہ سو ، اٹلی کے آٹھ سو چھیانوے ، جارجیا کے آٹھ سو ساٹھ ، برطانیہ کے سات سو پچاس، رومانیہ کے چھ سو انیس، ترکی کے چھ سو ، پولینڈ کے دو سو نوے ، منگولیا کے دو سو تینتیس، پرتگال کے ایک سو چوہتر ، ہالینڈ کے ایک سو ساٹھ ، ڈنمارک کے ایک سو پینتیس ، آرمینیا کے ایک سو اکیس ، آزربائیجان کے ایک سو بیس ، بلغاریہ کے ایک سو سترہ، ناروے کے ایک سو ایک، البانیہ کے ننانوے، آسٹریلیا کے اسی ، بلجئیم کے بہتر، بوسنیا کے چھیاسٹھ ، چیک ریپنلک کے باون ، ایستوینا کے پینتالیس ، لتھوینیا کے چالیس ، سلواکیہ کے پچیس ، اسپین کے چوبیس ، فن لینڈ کے بیس ، مقدونیہ کے سترہ، آسٹریا اور سویڈن کے سولہ سولہ، یونان کے گیارہ، یوکرین کے دس ، ہنگری کے آٹھ ، نیوزی لینڈ اور سلووینیا کے چھ چھ ، لٹویا اور لکسمبرگ کے دو دو فوجی افغانستان میں ” قیام ِ امن اور خوشحالی ” کے لیے کوشاں ہیں۔ اگلے ایک ماہ کے دوران یہ سب بھی روانہ ہو چکے ہوں گے۔

نجیب اللہ حکومت نے تو سوویت انخلا کے بعد لگ بھگ تین ساڑھے تین برس اپنے بل پر گذار لیے تھے مگر اشرف غنی حکومت افغانستان سے اگلے چند ہفتے کے دوران غیرملکی فوجیوں کے آخری دستے کی رخصتی کے بعد کتنی دیر چل پائے گی ؟ امریکی سی آئی اے کا اندازہ ہے کہ کابل حکومت اگلے چھ ماہ بھی سہار جائے تو بڑی بات ہے۔ بظاہر معروضی تصویر یوں ہے کہ صرف پچیس فیصد افغانستان پر کابل حکومت کا کنٹرول ہے۔ دیہی علاقہ لگ بھگ سو فیصد طالبان کے زیرِ اثر ہے۔پچاس سے زائد ضلعی ہیڈ کوارٹرز یا تو طالبان کے قبضے میں ہیں یا پھر گھیرے میں ہیں۔ فوجی اہمیت کے کئی مقامات افغان دستوں نے پہلے ہی خالی کر دیے ہیں یا پھر رفتہ رفتہ پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ داخلہ اور دفاع کی وزارتوں میں ردوبدل کیا گیا ہے۔ کابل حکومت نے طالبان کے لیے اور طالبان نے کابل حکومت کا ساتھ چھوڑنے والے فوجیوں اور پولیس والوں اور سویلین ملازمین کے لیے پیشگی عام معافی کا اعلان کر دیا ہے۔

کابل حکومت کی بے بسی کا اندازہ یوں ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی ہر پسپائی کو ’’ جنگی حکمتِ عملی کے تحت منصوبہ بند پسپائی ‘‘ قرار دے رہی ہے۔ یہ حالت دیکھ کر مجھے وہ دوست یاد آ رہا ہے جو ہر بار نشے میں دھت لڑکھڑا کے گر پڑتا۔ کوئی سہارا دینے کے لیے اپنا ہاتھ آگے بڑھاتا تو وہ ہاتھ جھٹکتے ہوئے کہتا ’’ یار میں نشے میں نہیں ہوں اپنی مرضی سے گرا ہوں ‘‘ ۔ جب ہم کہتے اچھا اب اپنی مرضی سے اٹھ کر بھی دکھاؤ تو لاچاری میں ہنسنے لگتا۔ امریکا یہ کہہ کر کابل حکومت کی ہمت بندھا رہا ہے کہ ناگزیر حالات میں خلیجی ممالک میں موجود پہلے سے تعینات پچاس ہزار امریکی فوجی بھی حرکت میں آسکتے ہیں اور امریکا فوجی انخلا کی رفتار سست بھی کر سکتا ہے تاکہ افغانستان میں طالبان کی برق رفتار پیش قدمی کے سبب توازن ِ طاقت بالکل ہی یکطرفہ نہ ہو جائے۔ مگر کابل حکومت کو بھی معلوم ہے کہ جس امریکا نے اسے بتائے بغیر بالا بالا طالبان سے معاملہ نپٹا کر انھیں برابر کا فریق تسلیم کر لیا وہی امریکا ایک ہارتی حکومت کو سہارا دینے آخر کیوں پلٹے گا۔

امریکا کو آٹھ برس پہلے ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ انگور کتنے کھٹے ہیں۔ آپ جتنے بڑے طرم خان ہوں مگر گھر سے ہزاروں میل پرے آپ کتنی دیر تک حالات کو اپنی مرضی کے مطابق بنانے کی خاطر زور زبردستی سے کام لے سکتے ہیں۔ جہاں افغان سرحد سے متصل سوویت یونین نہ چل پایا وہاں پانچ ہزار میل پرے سے آنے والا امریکا کب تک نہ ہانپتا۔ ویسے بھی ویتنام اور افغانستان سے انخلا کے تجربے میں صرف چھیالیس برس کا ہی تو فاصلہ ہے۔ امریکا نے جس طرح ویتنام میں حالات اپنے موافق کرنے کے لیے انیس سو بہتر سے انیس سو پچھتر تک کے تین برس کارپٹ بمباری کی۔ بالکل اسی طرح دو ہزار تیرہ سے انیس کے درمیان چھ برس میں افغان طالبان کو فضا سے ستر ہزار جنگی پروازوں کے ذریعے نشانہ بنانے کی کوشش کی اور ستائیس ہزار ٹن بم گرائے گئے۔ اس قدر محنت کے باوجود امریکا انھی طالبان کے ساتھ ایک میز پر بیٹھ گیا جیسے کہ شمالی ویتنامیوں کے ساتھ پیرس میں ایک میز پر بیٹھنے پر مجبور ہوا تھا۔ وہ میز امریکا کو باون ہزار فوجیوں کی موت کی قیمت پر ملی، مگر قطر میں طالبان کے ساتھ شئیر ہونے والی میز کی قیمت امریکا نے ویتنام کے تجربے سے بھی زیادہ چکائی۔

اس کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ افغان مہم جوئی پر بیس برس میں مجموعی امریکی خرچہ دو اعشاریہ چھبیس ٹریلین ڈالر (کھرب) کا ہوا۔ اس میں سے پونے دو کھرب ڈالر سیدھے سیدھے اسلحے اور فوج پر صرف ہوئے۔ دو سو چھیانوے ارب ڈالر فوجیوں کے علاج معالجے اور معذوری کی دیکھ بھالی سہولتوں پر لگ گئے۔پانچ سو تیس ارب ڈالر جنگی قرضے کے سود کی مد میں چلے گئے۔ ساٹھ ارب ڈالر افغان فوج کی تربیت و تشکیل میں خرچ ہو گئے۔ جب کہ ایک سو چوالیس ارب ڈالر افغانستان کی تعمیرِ نو کے نام پر مقامی وفاداروں، بچولیوں اور تعمیراتی ٹھیکیداروں میں بٹ بٹا گئے۔ بدلے میں ہاتھ کیا آیا۔ کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے۔ ویسے بھی سب کچھ ہی بیساکھیوں پر ہے۔ کابل حکومت کو جتنا بھی سالانہ بجٹ میسر ہے اس کا اٹھائیس فیصد دفاع پر خرچ ہو رہا ہے۔

عالمی بینک کے مطابق افغانستان کا تجارتی خسارہ کل قومی پیداوار کے تیس فیصد کے برابر ہے۔ بجٹ کا پچھتر فیصد دار و مدار غیر ملکی مدد پر ہے۔ گزشتہ برس امریکا نے اس مددگاری پر ساڑھے پینتیس ارب ڈالر ، جرمنی نے ساڑھے اٹھائیس ارب ڈالر، برطانیہ نے ساڑھے اٹھارہ ارب ڈالر، جاپان نے سولہ ارب ڈالر اور فرانس نے چودہ ارب ڈالر کا حصہ ڈالا۔ مگر یہ ایک سو گیارہ ارب ڈالر کہاں گئے ؟ نہ افغان کے پیر میں نظر آئے نہ تن پر۔ ابھی تو ایک اور انسانی مسئلہ بھی درپیش ہے۔ ہر نوآبادیاتی یا قابض طاقت روزمرہ کام اور مقامیوں سے رابطے یا مخبری کے لیے اپنا نیٹ ورک قائم کرتی ہے۔ یعنی چوکیدار ، باورچی ، ڈرائیور ، کلرک ، پیغام رساں ، مترجم ، گائیڈ ، ٹرانسپورٹر وغیرہ وغیرہ۔ یہ لوگ بھی عام شہری ہوتے ہیں اور روزگاری مجبوریوں میں قابض طاقت کی نوکری کرتے ہیں۔ مگر قابض طاقت کی مدِمقابل جنگجو تنظیمیں ان کارکنوں کو غدار یا مشکوک سمجھتی ہیں۔ 

چنانچہ ان کارکنوں کی بھی کوشش ہوتی ہے کہ کسی ممکنہ جانی نقصان یا سماجی بائیکاٹ کی ذلت کا سامنا کرنے کے بجائے قابض طاقت علاقہ چھوڑتے وقت انھیں بھی اپنے ہمراہ لے جائے۔ ویتنام سے جب امریکی افواج کا انخلا ہوا تو پینٹاگون بہت سے مقامی مددگاروں اور ان کے اہلِ خانہ کو امریکا منتقل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔پھر بھی ایک بڑی تعداد پیچھے رہ گئی۔ ایسے لوگ جان بچانے کے لیے کشتیوں میں بیٹھ کر نامعلوم منزلوں کی جانب نکل کھڑے ہوئے۔ انھیں تاریخ میں ’’ بوٹ پیپل یا بوٹ ریفیوجیز ‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ افغانستان میں گزشتہ بیس برس کے دوران لگ بھگ ایک لاکھ بیس ہزار افغان شہری امریکی اور اتحادی فوجوں کے لیے روزمرہ خدمات انجام دیتے رہے۔ مگر مقامی آبادی بالخصوص طالبان کی جانب سے انھیں مسلسل مخاصمت اور دھمکیوں کا سامنا رہا۔ بہت سے کارکن حملوں میں بھی مارے گئے۔ اب جب کہ امریکی اور ناٹو دستے واپس جا رہے ہیں۔ ان مقامی کارکنوں کا کیا مستقبل ہے ؟

امریکا نے اپنے مقامی خدمت گاروں کے لیے بیس ہزار امیگریشن ویزوں کے کوٹے کا اعلان کیا ہے۔ مگر اب تک صرف گیارہ ہزار ویزے ہی جاری ہو پائے ہیں۔ کئی کارکن برس ہا برس خدمات انجام دیتے رہے مگر کسی بھی معمولی وجہ کے سبب ان کی ویزا درخواست مسترد ہو گئی۔ اب یہ نمک خوار نہیں جانتے کہ بدلے حالات میں زندہ بھی رہ پائیں گے یا پھر کسی پناہ گزیں کیمپ میں نامعلوم عرصہ گذاریں گے۔ برطانیہ نے تقریباً تین ہزار کارکنوں کو امیگریشن ویزا جاری کیا ہے۔ جب کہ جرمنوں نے سات سو کارکنوں کو اپنے ہاں بسانے کا عندیہ دیا ہے۔ اگر سب ویسے ہی ہو گیا جیسا کہا جا رہا ہے تب بھی لگ بھگ ساٹھ فیصد کارکن پیچھے ہی رہ جائیں گے۔ بہرحال آنے والے مہینے صرف ان کارکنوں کے لیے ہی نہیں بلکہ افغانستان کے اندر اور اردگرد سب ہی کے لیے مشکل ثابت ہونے والے ہیں۔ اقوامِ متحدہ نے پیش بندی کے طور پر لاکھوں ممکنہ پناہ گزینوں کے لیے ابھی سے انتظامات شروع کر دیے ہیں۔ جانے کون کون سے ویرانے تازہ قبرستانوں میں بدلنے والے ہیں۔ جانے دو آنکھوں کو اور کیا کیا دیکھنا ہے۔

وسعت اللہ خان  

بشکریہ ایکسپریس نیوز

Post a Comment

0 Comments