Pakistan

6/recent/ticker-posts

بادشاہی مسجد… فنِ تعمیر کا انمول شاہکار

لاہور صوبہ پنجاب کا دارالحکومت اور پاکستان کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ یہ پاکستان کا ثقافتی، تعلیمی اور تاریخی مرکز ہے۔ اسے پاکستان کا دل اور باغوں کا شہر بھی کہتے ہیں۔ لاہور میں کئی جدید اور قدیم مساجد ہیں۔ یہ مساجد دراصل اس شہر میں مسلمانوں کے مختلف ادوار میں موجودگی اور اثر کی امین ہیں۔ لاہور میں موجود شاہی قلعہ، شالامار باغ، مقبرہ جہانگیر اور مقبرہ نور جہاں، مغل دور کی یادگاریں ہیں۔ جبکہ لاہور میں سکھ اور برطانوی دور کی تاریخی عمارتیں بھی موجود ہیں۔ انہی یادگاروں میں ایک بادشاہی مسجد ہے، اس کا شمار دنیا کی سب سے بڑی مساجد میں ہوتا ہے۔ یہ مسجد فنِ تعمیر کا ایک شاہکار ہے اور زندہ دِلان لاہور کی شناخت بھی ہے۔ اس عظیم الشان مسجد کی مختصراً تاریخ قارئین کی نظر ہے۔

بادشاہی مسجد 1673ء میں اورنگزیب عالمگیر نے لاہور میں بنوائی۔ یہ عظیم الشان مسجد مغلیہ دور کے فنِ تعمیر کی ایک شاندار مثال ہے ۔ یہ اسلام آباد کی فیصل مسجد کے بعد پاکستان کی دوسری بڑی مسجد ہے۔ جس میں بیک وقت 1 لاکھ لوگ نماز ادا کر سکتے ہیں۔ اس مسجد کا اندازِ تعمیر جامع مسجد دلی سے بہت ملتا جلتا ہے جو کہ اورنگزیب کے والد شاہجہان نے 1648 ء میں تعمیر کروائی تھی۔  ہندوستان کے چھٹے مغل بادشاہ ''اورنگزیب عالمگیر ‘‘ جو تمام مغلوں میں سے سب سے زیادہ مذہبی رجحان رکھتے تھے، انھوں نے اس مسجد کو اپنے سوتیلے بھائی مظفر حسین، جن کو ''فدائی خان کوکا ‘‘ بھی کہا جاتا تھا کی زیر نگرانی تعمیر کروایا۔ 1671 ء سے لیکر 1673 ء تک مسجد کی تعمیر کو دو سال لگے۔ مسجد کو شاہی قلعہ کے برعکس تعمیر کیا گیا۔ جس سے اس کی مغلیہ دور میں اہمیت کا پتہ لگتا ہے۔ 

اس مسجد کی تعمیر کے ساتھ ہی اورنگزیب نے اس کے دروازے کے برعکس شاہی قلعہ میں ایک باوقار دروازے کا اضافہ کیا۔ جس کو عالمگیری دروازہ کہا جاتا ہے۔ اگر ہندوستان میں دیگر تاریخی مساجد کے طرز تعمیر کا بغور مطالعہ کیا جائے تو اس مسجد کا طرز تعمیر کافی حد تک جامع مسجد ''فتح پور سیکری‘‘ سے مماثلت رکھتا ہے۔ یہ مسجد حضرت سلیم چشتیؒ کے عہد میں 1571-1575ء میں پایہ تکمیل تک پہنچی۔ اس حوالے سے دوسری اہم ترین مسجد، دہلی کی جامع مسجد ''جہاں نما‘‘ ہے جو کہ اورنگزیب کے والد شاہ جہان نے 1650-1656ء میں تعمیر کی تھی۔یہ دونوں مساجد ایک دوسرے سے اس قدر مماثلت رکھتی ہیں کہ پہلی نظر میں یہ دونوں مساجد ایک ہی جیسی گمان ہوتی ہیں۔ اورنگزیب کے کئی کام باپ اور بھائیوں کے مقابلے میں تھے۔ 

یہی معاملہ تعمیرات کے ساتھ بھی رہا۔ شاہی مسجد لاہور اور موتی مسجد آگرہ اس کی اہم ترین مثالیں ہیں۔ تاریخی کتب کے مطابق دہلی کی جامع مسجد پر اخراجات دس لاکھ روپے آئے تھے جو کہ لاہور کی مسجد سے چار لاکھ روپے زائد تھے جبکہ لاہور کی مسجد صرف دو برس کی قلیل مدت میں تعمیر ہو گئی تھی اور دہلی کی مسجد پر پانچ برس سے زائد کا عرصہ لگا۔ مغل سلطنت کے زوال کے ساتھ ہی زمانے کے بدلتے رنگوں میں اس عظیم الشان مسجد نے بھی کئی اہم ادوار دیکھے۔ وہ مسجد جس کے اخراجات کے لئے پورے ایک ضلع کی آمدنی وقف تھی وہ انتہائی برے حالات میں رہی۔ ایک عرصہ تک یہ مسجد سکھوں کے قبضے میں رہی۔ مہا راجہ رنجیت سنگھ نے اس مسجد کے وسیع و عریض میدان کو اپنی سپاہ کے گھوڑوں کا اصطبل بنا دیا۔ 

مسجد کے صحن کی شمالی اور جنوبی سمت میں موجود حجرے جو مسلمان طالب علموں کے زیر استعمال رہا کرتے تھے، ان کو سکھ فوجیوں نے اپنی رہائش گاہیں بنا لیا۔ گھوڑوں کے کھروں کے باعث مسجد کا خوبصورت فرش جس میں کھڑی اینٹ کا استعمال کیا گیا تھا وہ تباہ و برباد ہو کر رہ گیا۔ 1850 ء میں بادشاہِ مسجد کی مرمت کا آغاز ہوا۔ لیکن مسجد کی مرمت کا یہ منصوبہ زیادہ دیر جاری نہ رہ سکا اور نامکمل رہا۔ آخرکار مکمل مرمت کے منصوبے کا آغاز 1939ء میں ہوا اور 1960 ء میں مکمل ہو گیا۔ اس منصوبے پر 48 لاکھ روپے کی لاگت آئی۔ اس مرمت کی وجہ سے مسجد ایک بار پھر اپنی اصلی حالت میں واپس آگئی۔ 1980ء کی دہائیوں سے مولانا عبدالقادر آزاد بادشاہی مسجد کے امام رہے ان کی وفات کے بعد ان کے فرزند پیش امام ہوئے۔

پنجگانہ نماز کے ساتھ ساتھ یہاں پر جمعہ اور عیدین کی نمازوں کے اجتماع ہوتے ہیں۔ مسجد کی ابتدائی تعمیر میں موذن کی آواز کی باہر تک رسائی کے لئے تعمیر کی ایک خاص تکنیک کو مد نظر رکھا گیا تھا لیکن دور حاضر میں بجلی کے سپیکر نصب کئے گئے ہیں۔ مسجد کی مغربی سیدھ میں گنبدوں کے نیچے ہال میں کاشی کاری کا ایک خاص رنگ دکھائی دیتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بادشاہی مسجد میں موجود کاشی کے یہ نمونہ جات پوری دنیا میں نایاب اور اپنی مثال آپ ہیں۔ مسجد میں دیگر افراد کے ساتھ ساتھ ملک بھر سے سکولوں کے طالب علم تعلیمی اور معلوماتی دوروں پر آتے ہیں۔

دانش احمد

بشکریہ دنیا نیوز

Post a Comment

0 Comments