Pakistan

6/recent/ticker-posts

قلعہ روہتاس، جنگی طرز تعمیر کا شاہکار

شیر شاہ سوری کا قلعہ روہتاس جرنیلی سڑک پر جہلم میں واقع ہے۔ دریائے جہلم بھی یہاں ہی ہے جسے عبور کرنا سکندراعظم کے لئے دوبھر ہو گیا تھا اور ایک دفعہ تو اسے راجہ پورس نے ناکوں چنے چبوا دیئے تھے۔ ''خواص خانی‘‘ دروازے سے قلعے میں داخل ہوا جاتا ہے۔ قلعہ میں سب سے حیران کن چیز باؤلی یعنی ''سیڑھیوں والے کنویں‘‘ ہے۔ قریبی فصیل پر بھی چڑھا جاسکتا ہے ۔ یہ آپ کو 6 صدیاں پیچھے تاریخ میں لے جاتا ہے۔ آج یہ کھنڈرات میں تبدیل ہو رہا ہے۔ شیر شاہ سوری کا تعمیر کیا گیا قلعہ 948ھ میں مکمل ہوا۔ جو پوٹھوہار اور کوہستان نمک کی سرزمین کے وسط میں تعمیر کیا گیا ہے۔ جس کے ایک طرف نالہ کس، دوسری طرف نالہ گھان تیسری طرف گہری کھائیاں اور گھنا جنگل ہے۔ شیر شاہ سوری نے یہ قلعہ گکھڑوں کی سرکوبی کے لیے تعمیر کرایا تھا۔ دراصل گکھڑ مغلوں کو کمک اور بروقت امداد دیتے تھے، جو شیر شاہ سوری کو کسی طور گوارا نہیں تھا۔ 

جب یہ قلعہ کسی حد تک مکمل ہو گیا تو شیر شاہ سوری نے کہا کہ آج میں نے گکھڑوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا ہے۔ اس قلعے کے عین سامنے شیر شاہ سوری کی بنائی ہوئی جرنیلی سڑک گزرتی تھی، جو اب یہاں سے پانچ کلومیٹر دور جا چکی ہے۔ دوسرے قلعوں سے ہٹ کر قلعہ روہتاس کی تعمیر چھوٹی اینٹ کے بجائے دیوہیکل پتھروں سے کی گئی ہے۔ ان بڑے بڑے پتھروں کو بلندیوں پر نصب دیکھ کر عقل حیران رہ جاتی ہے۔ ایک روایت کے مطابق اس قلعے کی تعمیر میں عام مزدوروں کے علاوہ بے شمار بزرگانِ دین نے اپنی جسمانی اور روحانی قوتوں سمیت حصہ لیا تھا۔ ان روایات کو اس امر سے تقویت ملی ہے کہ قلعے کے ہر دروازے کے ساتھ کسی نہ کسی بزرگ کا مقبرہ موجود ہے ، جب کہ قلعے کے اندر بھی جگہ جگہ بزرگوں کے مقابر موجود ہیں، اس کے علاوہ ایک اور روایت ہے کہ یہاں قلعے کی تعمیر سے پہلے ایک بہت بڑا جنگل تھا۔ شیر شاہ سوری کا جب یہاں سے گزر ہوا تو یہاں پر رہنے والے ایک فقیر نے شیر شاہ سوری کو یہاں قلعہ تعمیر کرنے کی ہدایت دی۔

اخراجات: ایک روایت کے مطابق ''ٹوڈرمل‘‘ نے اس قلعے کی تعمیر شروع ہونے والے دن مزدوروں کو فی سلیب (پتھر) ایک سرخ اشرفی بہ طور معاوضہ دینے کا اعلان کیا تھا۔ گو قلعہ کی تعمیر پر اٹھنے والے اخراجات کا درست اندازہ نہیں لگایا جاسکتا تاہم ایک روایت کے مطابق اس پر اس زمانے کے 34 لاکھ 25 ہزار روپے خرچ ہوئے۔ جس کا تخمینہ آج کے اربوں روپے بنتے ہیں۔ واقعات جہانگیری کے مطابق یہ اخراجات ایک پتھر پر کندہ کیے گئے تھے جو ایک زمانے میں قلعے کے کسی دروازے پر نصب تھا۔ قلعے کی تعمیر میں 3 لاکھ مزدوروں نے بہ یک وقت حصہ لیا اور یہ 4 سال 7 ماہ اور 21 دن میں مکمل ہوا۔ یہ چار سو ایکٹر پر محیط ہے، جب کہ بعض کتابوں میں اس کا قطر 4 کلومیٹر بیان کیا گیا ہے۔ قلعے کے بارہ دروازے ہیں۔ جن کی تعمیر جنگی حکمت عملی کو مد نظر رکھ کر کی گئی ہے۔ یہ دروازے فن تعمیر کا نادر نمونہ ہیں۔ 

ان دروازوں میں خواص دروازہ ، موری دروازہ ، شاہ چانن والی دروازہ ، طلاقی دروازہ ، شیشی دروازہ ، لنگر خوانی دروازہ ، بادشاہی دروازہ ، کٹیالی دروازہ ، سوہل دروازہ ، پیپل والا دروازہ ، اور گڈھے والا دروازہ، قلعے کے مختلف حصوں میں اس کے دروازوں کو بے حد اہمیت حاصل تھی۔ اور ہر دروازہ کا اپنا مقصد تھا جبکہ خاص وجہ تسمیہ بھی تھی۔ ہزار خوانی صدر دروازہ تھا۔ طلاقی دروازے سے'' دور شیر شاہی‘‘ میں ہاتھی داخل ہوتے تھے۔ طلاقی دروازے کو منحوس دروازہ سمجھا جاتا تھا۔ شیشی دروازے کو شیشوں اور چمکتی ٹائلوں سے تیار کیا گیا تھا۔ لنگر خوانی لنگر کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ کابلی دروازے کا رخ چونکہ کابل کی طرف تھا اس لیے اس کو کابلی دروازہ کہا جاتا تھا۔ سوہل دروازہ زحل کی وجہ سے سوہل کہلایا۔ جبکہ اس کو سہیل دروازہ بھی کہا جاتا تھا کیونکہ حضرت سہیل غازی کا مزار یہیں واقع تھا۔

گٹیالی دروازے کا رخ چونکہ گٹیال پتن کی طرف تھا اس لیے اس کو یہی نام دیا گیا۔ اس طرح مختلف دروازوں کے مقاصد مختلف تھے۔ قلعہ روہتاس کا سب سے قابلِ دید ، عالی شان اور ناقابل شکست حصہ اس کی فصیل ہے۔ اس پر 68 برج ، 184 برجیاں ، 6881 کنگرے اور 8556 سیڑھیاں ہیں جو فن تعمیر کا نادر نمونہ ہیں۔ یہ بات حیرت انگیز ہے کہ اتنے بڑے قلعے میں محض چند رہائشی عمارتیں تعمیر کی گئی ہیں۔ قلعے کی عمارتوں میں سے ایک عمارت کو شاہ مسجد کہا جاتا ہے اور چند باؤلیاں تھیں، بعد ازاں ایک حویلی تعمیر کی گئی، جسے راجا مان سنگھ نے بنوایا تھا۔ محلات کے نہ ہونے کے باعث مغل شہنشاہ اس قلعے میں آکر خیموں میں رہا کرتے تھے۔ یہ قلعہ صرف دفاعی حکمت علمی کے تحت بنایا گیا تھا ، اس لیے شیر شاہ سوری کے بعد بھی برسر اقتدار آنے والوں نے اپنے ٹھہرنے کے لیے یہاں کسی پرتعیش رہائش گاہ کا اہتمام نہیں کیا۔

قلعہ روہتاس دیکھنے والوں کو ایک بے ترتیب سا تعمیری ڈھانچا نظرآتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ شیر شاہ سوری نے اسے تعمیر کرتے ہوئے نقش نگاری اور خوب صورتی کے تصور کو فراموش نہیں کیا۔ قلعے کے دروازے اور بادشاہی مسجد میں کی جانے والی میناکاری اس کا واضح ثبوت ہے۔ ہندوانہ طرز تعمیر کی پہچان قوسین قلعے میں جابجا دکھائی دیتی ہیں۔ جن کی بہترین مثال سوہل گیٹ ہے۔ اسی طرح بھربھرے پتھر اور سنگ مر مر کی سلوں پر کندہ مختلف مذہبی عبارات والے کتبے خطابی کے نادر نمونوں میں شمار ہوتے ہیں۔ جو خط نسخ میں تحریر کیے گئے ہیں۔ خواص خوانی دروازے کے اندرونی حصے میں دو سلیں نصب ہیں جن میں سے ایک پر کلمہ شریف اور دوسری پر مختلف قرآنی آیات کندہ ہیں۔ شیشی دروازے پر نصب سلیب پر فارسی میں قلعے کی تعمیر کا سال 948ھ کندہ کیا گیا ہے موجودہ حالت: قلعے کے اندر مکمل شہر آباد ہے اور ایک ہائی اسکول بھی قائم ہے۔ مقامی لوگوں نے قلعے کے پتھر اکھاڑ اکھاڑ کر مکان بنا لیے ہیں۔ 

قلعے کے اندر کی زمین کی فروخت منع ہے۔ اس وقت سطح زمین سے اوسط تین سو فٹ بلند ہے۔ اس وقت چند دروازوں ، مغل شہنشاہ اکبر اعظم کے سسر راجا مان سنگھ کے محل اور بڑے پھانسی گھاٹ کے سوا قلعہ کا بیش تر حصہ کھنڈرات میں تبدیل ہو چکا ہے۔ شیر شاہ سوری کے بیٹے سلیم شاہ نے قلعے کے باہر کی آبادی کو قلعہ کے اندر منتقل ہونے کی اجازت دے دی تھی۔ اس آبادی کی منتقلی کے بعد جو بستی وجود میں آئی اب اسے روہتاس گاؤں کہتے ہیں۔ سلیم شاہ کا خیال تھا کہ آبادی ہونے کے باعث قلعہ موسمی اثرات اور حوادثِ زمانہ سے محفوظ رہے گا ، لیکن ایسا نہ ہو سکا اور آج اپنے وقت کا یہ مضبوط ترین قلعہ بکھری ہوئی اینٹوں کی صورت اس حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں۔

فرخ ، رانا عثمان

بشکریہ دنیا نیوز

Post a Comment

0 Comments