گزشتہ کچھ برسوں میں شمالی علاقہ جات کا رخ کرنے والے سیاحوں کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے، جس میں زیادہ تر ملکی اور بڑی تعداد میں غیر ملکی بھی شامل ہیں۔ تاہم مقامی سیاحوں کی نسبت غیر ملکی سیاح علاقے کے حوالے سے نہ صرف مکمل تحقیق کر کے وہاں کا رخ کرتے ہیں بلکہ وہاں کی دشواریوں، ضروریات اور ممکنہ خطرات سے نمٹنے کے لیے بھی بھرپور تیاری کے ساتھ آتے ہیں۔ اس کے برعکس مقامی سیاح اس قدر لاپروا ہیں کہ دیوقامت پہاڑوں کے دشوار گزار راستوں میں چھوٹی گاڑیوں کے ساتھ آجاتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یا تو گاڑیاں پھنس جاتی ہیں یا خراب ہو جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ کئی گاڑیاں کھائی، دریاؤں میں گرنے کے بعد ہلاکتیں بھی دیکھنے کو ملتی ہیں۔ بہت سے مقامی سیاح سرد علاقوں میں گرم کپڑوں کے بغیر چلے آتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ بیمار ہوتے ہیں اور کئی مرتبہ سردی سے ٹھٹھر کر جان کی بازی بھی ہار جاتے ہیں۔ مری میں ہونے والی ہلاکتوں کی ایک وجہ یہ بھی تھی۔ اب سوال یہ ہے کہ شمالی علاقہ جات کا رخ کرنے سے قبل، مقامی سیاحوں کو کن باتوں کا خیال رکھنا چاہیے؟ اپنے ساتھ کیا سامان لانا چاہیے؟ کس جگہ جانا چاہیے اور کہاں جانے سے گریز کرنا چاہیے؟ اس مختصر بلاگ میں ان سوالوں کا جواب دینے کی کوشش کی گئی ہے۔
سفر کےلیے کیسی گاڑیاں استعمال کریں؟ شمالی علاقہ جات میں زیادہ تر سڑکیں کچی اور چڑھائی، اترائی پر مشتمل ہیں، راستے دشوار گزار، تنگ اور پتھریلے ہیں۔ جب تک آپ آف روڈ ڈرائیونگ میں مہارت نہیں رکھتے، وہاں خود گاڑی نہ چلائیے۔ اس کے علاوہ سوائے فور وہیل گاڑیوں کے اور کوئی چھوٹی گاڑی ساتھ نہ لائیں۔ راستے میں آپ کو سیلابی ریلا، برفانی یا مٹی کے تودے یا پہاڑوں سے گرے ہوئے پتھر مل سکتے ہیں، جہاں آپ کی چھوٹی گاڑی پھنس سکتی ہے۔
کپڑوں کا انتخاب بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ گرمیوں میں گرم کپڑے ساتھ لے کر شمالی علاقہ جات جانے کی ضرورت نہیں۔ حالانکہ یہ بات درست نہیں۔ بارش کے بعد اور تیز ہواؤں کے چلنے سے گرمی کے موسم میں بھی ٹھنڈ میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ آپ اپنے ساتھ گرم کپڑے ضرور لے کر جائیں۔
کھانے پینے کی اشیا کا خیال شمالی علاقہ جات میں ہوٹل اور ریسٹورنٹس بکثرت موجود ہیں تاہم وہاں کے کھانوں کا ذائقہ آپ کے لیے بے ذائقہ ثابت ہو سکتا ہے، کیوں کہ وہاں پر مرچ مصالحے کا زیادہ رواج نہیں ہے۔ اس کے علاوہ کھانا نسبتاً مہنگا بھی ہے۔ اس لیے اگر آپ کھانوں کے زیادہ شوقین ہیں تو کوشش کر کے اپنے ساتھ ہی گوشت وغیرہ لے جائیں اور خود ہی پکا کر کھائیں۔
کن مقامات پر جانے سے گریز کریں؟ دریاؤں کے پاس جانا انسان کو فطرت کے قریب لے جاتا ہے۔ مگر کبھی کبھار یہ شوق آپ کے لیے جان لیوا بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ خصوصاً جب آپ شمالی علاقہ جات کا رخ کرتے ہیں۔ کئی ایسے واقعات سامنے آئے ہیں جہاں دریا میں گر کر مقامی سیاح لاپتہ ہو گئے۔ اس لیے آپ سے گزارش ہے کہ دریاؤں کے قریب جائیں مگر زیادہ قریب نہیں، کیونکہ وہاں دریا تیزی سے بہتے ہیں اور ماہر تیراک بھی بعض اوقات ہمت ہار جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ پہاڑ کی چوٹی یا کسی بڑے پتھر کے آخری کونے یا کسی درخت پر چڑھ کر تصاویر بنانے سے گریز کیجئے، کیوں کہ گرنے کی صورت میں آپ جان سے ہاتھ دھو سکتے ہیں۔ سیلابی ریلے اور برفانی تودوں کا بھی خیال کیجئے۔ پہاڑوں پر اکیلے چڑھنے سے اجتناب کیجئے۔ کوئی جنگلی جانور بھی آپ کو نقصان پہنچا سکتا ہے، اس لیے احتیاط بہتر ہے۔
سیر کے لیے کون سا وقت مناسب ہے؟ یہ نکتہ شاید سب سے زیادہ اہم ہے۔ بہت سے مقامی سیاح سردیوں میں ناردرن ایریاز کی طرف چلے جاتے ہیں جو خطرے سے خالی نہیں۔ گرمیوں میں جانا مناسب ضرور ہے مگر محکمہ موسمیات سے متعلقہ رپورٹ لینے کے بعد جانا آپ کو ممکنہ خطرات سے بچا سکتا ہے۔ مثلاً حالیہ دنوں میں گلوبل وارمنگ کی وجہ سے گلیشیئرز بڑی تیزی سے پگھل رہے ہیں اور سیلاب کی صورت اختیار کر کے پلوں اور سڑکوں کو ملیامیٹ کر رہے ہیں۔ ان دنوں شمالی علاقہ جات کا رخ کرنا بڑی مصیبت کو دعوت دینے جیسا ہے۔
سیاحتی اخلاقیات کی پاسداری کیجئے اس نکتے پر ہمارے ملک میں کم ہی بات ہوتی ہے۔ جب آپ کسی علاقے میں سیاحت کی غرض سے جاتے ہیں تو آپ اپنے شہر یا علاقے کے سفیر کے طور پر جاتے ہیں۔ آپ کے اچھے یا برے رویے سے لوگوں کی آپ کے بارے میں رائے قائم ہوتی ہے۔ سیاحتی اخلاقیات میں سب سے پہلے اس بات کا خیال رکھیے کہ مقامی لوگوں یا ماحول کو آپ کی وجہ سے کسی بھی قسم کی تکلیف نہ پہنچے۔ سیاحتی مقامات میں گند پھیلانا، بغیر اجازت مقامی افراد کی تصاویر یا ویڈیوز بنانا، علاقے کے حوالے سے من گھڑت معلومات فراہم کرنا یا وہاں کی ثقافت یا تہذیب کے حوالے سے منفی پروپیگنڈا کرنا اخلاقی اور قانونی جرم ہے، جس سے آپ کے مسائل میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
جس طرح آپ اپنے گھر کا خیال رکھتے ہیں، گھر کے افراد کو ترجیح دیتے ہیں، اسی طرح پاکستان بھی ہمارا گھر ہے۔ اسے صاف رکھنا، اس کے شہریوں کا خیال رکھنا اور اس کا مثبت پہلو اجاگر کرنا ہمارا اخلاقی فریضہ ہے۔ ایک سیاح ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے میں جاتا ہے تو وہاں ان کو مختلف نظریات، روایات اور عقیدوں کے شہری ملتے ہیں، اور یہی تکثیریت کی خوبصورتی ہے کہ ہم نئے لوگوں اور مختلف نظریات کے حامل ذہنوں سے ہم آہنگ ہوتے ہیں۔ اپنے سے مختلف اقدار اور روایات کا خیال رکھے بغیر آپ سیر سپاٹے کر سکتے ہیں مگر ایک ذمے دار سیاح نہیں بن سکتے۔
0 Comments