Pakistan

6/recent/ticker-posts

پاکستان کو کئی امتیاز حاصل ہیں

جس طرح گلشن میں رہنے والوں کو گل بوٹوں کے حسن، خوشنمائی اور خوشبو کا احساس نہیں ہوتا اسی طرح پاکستان میں رہنے والوں کو بھی پاک وطن کی خوشگوار فضا، ہمہ قسم کے آزاد ماحول کے اثرات کا ادراک نہیں ہوتا۔ یہاں جتنی آزادی ہے، بے فکری ہے، راحت وسکون ہے، چاروں قسم کے موسم سے لطف اندوز ہونے اور بہترین زندگی گزارنے کے مواقع ہیں، اتنے کہیں اور نہیں۔ 192 ممالک میں اس کا بہترین محل وقوع ہے۔ کراچی اور گوادر کی بندرگاہوں سے اچھی کوئی بندرگاہ نہیں۔ دنیا کا سب سے بڑا، اچھا اور منظم نہری نظام ہے۔ ہموار، پتھریلی، ریتیلی اور چکنی زمینیں ہیں۔ آبی، زمینی اور فضائی راستے ہیں۔ ریلوے ٹریک اور سڑکوں کے جال ہیں۔ تیل کے چشمے اور قیمتی پتھروں کی کانیں، زرخیز مٹی، دریا ، نہریں اور گرم سمندر اور گلیشئر ہیں۔ محنتی کسان، پسینہ بہانے والے مزدور، جان کی بازی لگانے والے فوجی ہیں۔ باصلاحیت اور اعلیٰ دماغ ہیں۔ نڈر صحافی اور ادیب ہیں۔ کچھ کر گزرنے والے نوجوان ہیں۔ 

تعلیم کے شعبے میں بہترین خدمات سرانجام دینے والے علماء ہیں۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ یہاں گندم، کپاس، گنا اور آم اعلیٰ قسم کا ہوتا ہے۔ پاکستان اعلیٰ مصنوعات کا مرکز ہے۔ اگر یہاں کی سبزیوں اور پھلوں میں بے مثال قسم کی مٹھاس ہے تو مصنوعات میں بھی نفاست اور معیار ہے۔ پاکستان کا گندم، چاول، کپاس، گنا، دالیں اور فروٹ پیدا کرنے والے بڑے ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ سیالکوٹ میں دنیا کا نمبر ون کھیلوں کا سامان تیار ہوتا ہے۔ تھرپارکر میں کوئلے کے اتنے بڑے بڑے ذخائر ہیں کہ ہزار سال کےلئے کافی ہیں۔ کھیوڑہ میں نمک کی بڑی بڑی کانیں ہیں۔ وادی ِسوات کا حسن سیاحوں کو اپنی زلف کا اسیر بنالیتا ہے۔ مری، کاغان اور نتھیاگلی جانے والا وہیں کا ہوکر رہ جاتا ہے۔ گوادر مستقبل کا پیرس بننے جارہا ہے۔ پاکستان کو کئی ایسے امتیاز حاصل ہیں جو 58 اسلامی ممالک میں سےکسی کو بھی حاصل نہیں۔ ان امتیازی خصوصیات کا تذکرہ اسلئے ضروری ہے تاکہ ہمیں پاکستان کی قدر معلوم ہو اور اس کی تعمیر وترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے سکیں۔ 

پاکستان کی جغرافیائی اہمیت اس کو عالم اسلام میں ایک غیر معمولی مقام دلاتی ہے۔ ایک طرف بحیرہ ِعرب ہے جو ایک آبی شاہراہ ہے۔ دوسری طرف غیر معمولی اہمیت رکھنے والے چین، ہندوستان اور ایران جیسے ممالک ہیں۔ تیسری طرف افغانستان ہے جو وسطی ایشیائی ریاستوں کیلئے گیٹ وے کی حیثیت رکھتا ہے۔ امریکہ اور اسکے 42 اتحادیوں کا غیر معمولی نقصانات اٹھانے کے باوجود اس خطے کو چھوڑنے سے گریز اس کی بے انتہا اہمیت کا ثبوت ہے۔ عالم اسلام کی سب سے بڑی اور مضبوط فوج پاکستان کی ہے جو جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ہے۔ سامراجی قوتوں کو کسی اسلامی ملک میں اس قسم کی تربیت یافتہ، عددی طور پر بہت بڑا حجم رکھنے والی اور اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا دنیا بھر میں لوہا منوانے والی فوج کا وجود کسی طور قابل قبول نہیں۔ اسی طرح موجودہ دور میں تمام بڑے فیصلے انٹیلی جنس رپورٹس اور خفیہ جاسوسی و تحقیقاتی اداروں کی رائے کے مطابق کئے جاتے ہیں۔ 

درحقیقت سیکورٹی کا اور معلومات کا دورہے۔ اس حوالے سے پاکستان کا فوجی ادارہ آئی ایس آئی اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کی وجہ سے دنیا کی چند بڑی انٹیلی جنس ایجنسیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ پاکستان کا آئین اس ملک میں اسلام کو جو تحفظ دیتا ہے وہ اپنی نوعیت کا ایک منفرد اور قابل قدر دستوری تحفظ ہے۔ اس میں اسلام کو ریاست کا سرکاری مذہب ماننا، حاکمیت اعلیٰ اور اقتدار اعلیٰ کا مالک اللہ کو ماننا، قرآن و سنت کے خلاف قانون سازی کا ممنوع ہونا، اسلامی تہذیب اور عربی زبان کو فروغ دینے کا حکومتوں کو پابند کرنا، صدر و وزیر اعظم کا مسلمان ہونا ایسی دفعات ہیں جو شاید ہی کسی اسلامی ملک کے قانون کا حصہ ہوں۔ پاکستان عالمِ اسلام کا واحد ایٹمی صلاحیت سے لیس ملک ہے۔ بلکہ اس وقت اس کا شمار دنیا کے ان سات ممالک میں ہوتا ہے جو ایٹمی طاقت کہلاتے ہیں۔ تقریر و تحریر کی جتنی آزادی پاکستان میں ہے، اتنی کسی بھی اسلامی ملک میں نہیں ہے۔ پاکستان کے سرکاری ونجی مختلف ادارے دنیا بھر میں طلائی تمغے، ایوارڈ اور انعامات جیت رہے ہیں۔ 

آئے دن خبر آتی ہے کہ آج پاکستان کے فلاں ادارے نے میدان مار لیا اور آج اس شخصیت کو ایوارڈ سے نوازا گیا۔ تازہ ترین خبر یہ ہے کہ پاکستان دنیا کی 10 بڑی فوجی قوتوں میں شامل ہو گیا ہے۔ یہ ہم سب پاکستانیوں بلکہ عالم اسلام اور تمام مسلمانوں کے لئے بہت بڑے اعزازکی بات ہے۔ پاکستان نے کئی ترقی یافتہ ممالک کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اس فہرست کی تیاری جوہری ہتھیاروں کو دیکھ کر نہیں کی جاتی بلکہ فوج کے پاس موجود غیر جوہری ہتھیاروں کی بنا پر کی جاتی ہے۔ یہ سب دلائل ثابت کرتے ہیں کہ یہ مٹی بڑی زرخیز ہے۔ اس میں دنیا کی امامت اور قیادت کا جوہر موجود ہے۔ عوام اور ادارے ملک کو آگے لے جانا چاہتے ہیں۔

انور غازی

بشکریہ روزنامہ جنگ

Post a Comment

0 Comments